میں معافی کا نہیں، سزا کا متحمل ہوں

0
COM
میں عورتوں سے تمام مردوں کی طرف سے معافی مانگتا ہوں۔ جو کچھ بھی میں نے یعنی 'پاکستانی نام نہاد مرد' نے عورت کیساتھ کیا، میں معافی کا نہیں سزا کا متحمل ہوں، لیکن پھر بھی نہ جانے کیوں، میں معافی مانگ رہا ہوں۔ ایسا شاید یس لیئے ہو کہ یہ معافی نہیں بلکہ اعتراف جرم ہے، اور اعتراف جرم کے بعد تو اکثر سزا ہی ہوا کرتی ہے۔

طبقات کیسے ختم ہو سکتے ہیں؟

0
COM
ہو سکتا ہے آپکو اس بات سےاختلاف ہو مگر میں اس پر یقین رکھتا ہوں کہ جو قوانین کوئی بھی خاص گروہ یا قوم بنائے، وہی اپنے بنائے ہوئے قوانین پر عمل کرتا رہے، دوسرے گروہوں یا قوموں کو اپنے ذاتی قوانین کی آگ میں جھونکنا کہاں کا انصاف ہے؟ باقاعدہ "آگ میں جھونکنا"اس لئے لکھا گیا کہ واضح ہو کہ میں قوانین کے زبردستی تھونپنے کے حق میں نہیں ہوں۔ ہاں اگر کوئی مرضی سے کسی بھی طبقے کے قوانین پر عمل کرنا چاہتا ہے تو اس میں کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔

محبت کی متوالی مکھیاں - محمودالحق

0
COM
یہ تحریر محمودالحق کے بلاگ سے حاصل کی گئی ہے،جسکا پتہ یہ ہے: محبت کی متوالی مکھیاں
تکمیل ذات و خیال کا ایسا بھنور ہے جس سے نکلنے کے لئے جسم و جاں تنکے کے سہارے کی اُمید بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ پانا اور دینا حرف غلط کی مثل رہ جاتے ہیں۔ دراصل جینا اور مٹنا جسم و جاں کے باہمی تعلق کو سانس کی زندگی تک زندہ رکھتے ہیں۔ مٹے بنا جینا کھل کر سامنے نہیں آتا۔ ذات ایک ایسا بلیک ہول ہے جو قریب آنے والی تحسین و پزیرائی کو جزب کرتا ہے۔خیال مخالف کو آلارم بجا بجا دور بھگاتا ہے۔مکمل حیات جاودانی کے منظر احساس کو چھو جاتے ہیں۔جسے مکمل جانا نہ جا سکے اسے مکمل پایا نہیں جا سکتا۔

حکم: "اؤے یہ کر ورنہ۔۔۔ اؤے وہ کر ورنہ۔۔۔"

0
COM
جب تیرا حکم ملا ترک محبت کر دی
دل مگر اس پہ وہ تڑپا کہ قیامت کر دی

حکم سے بات تو منوائی جا سکتی ہے مگر اس بات کی اہمیت واضح نہیں کی جا سکتی۔ میں نے جب بھی کوئی حکم  مانا ہے، ہمیشہ ایک دفعہ کے لیئے مانا ہے،وہ بھی برائے ادب، دوبارہ وہ کام کرنے کی زحمت نہیں کی، اور اسکی واضح وجہ اس بات کا میرے لیئے ‘حکم’ ہونا ہے۔ حکم دیتے دوران آپ محکوم کو حقیر سمجھ رہے ہوتے ہیں، اگرباطنی طور پر ایسا نہیں تو کم از کم ظاہری طور پر تو بہر حال ایسا ہی ہے۔ ‘بات’صرف اسوقت ہی ہو سکتی ہے جب بات کرنیوالے برابری کی سطح پر براجمان ہوں، بصورت دیگر ‘جسکی لاٹھی اسکی بھینس’والی مثال صادق آتی ہے۔ اب بھینس کو بالکل خبر نہیں ہوا کرتی کہ اسے ‘ایسا ویسا’ کیوں کہا جا رہا ہے۔

تن من وارے بیٹھا ہوں - عبدالرؤف

0
COM

تن من وارے بیٹھا ہوں
اک عمر گزارے بیٹھا ہوں
بے شعور ی محفل میں بھی
ادب کے مارے بیٹھا ہوں
حق گوئی کی ہے جسمیں سزا
اُس ظلم ادارے بیٹھا ہوں
تو نے جو کرنا ہے، کر لے تو
ترے پاس پیار ے بیٹھا ہوں
میں تو بھائی! مرضی سے اس
موت کنارے‘ بیٹھا ہوں
تجھ کو ’ایویں‘ شک ہے کہ
میں تیرے سہارے بیٹھا ہوں

(عبدالرؤف)

اوئے گدھے کے بچے! بالکل ہی بیوقوف ہے یار تو

4
COM

اوپر دی گئی تصویردیکھ کر ہو سکتا ہے کہ آپکو ہنسی آئی ہو، آپکو نہیں آئی تو میرے کافی فیس بکی دوستوں کو بہت آئی۔ یہ تصویر فقط شوق کے لئے نہیں بلکہ یہ باقاعدہ شعور پھیلانے کے لئے لی گئی تھی کہ گدھے قابل محبت جانور ہوا کرتے ہیں، انکے نام پر گالیاں دینا اور انہیں بیوقوفی کی مثال سمجھنا بے حد بیوقوفی ہے۔

ٹھنڈا گوشت از سعادت حسن منٹو

0
COM
ایشر سنگھ جونہی ہوٹل کے کمرے میں داخل ہوا، کلونت کور پلنگ سے اٹھی۔ اپنی تیز تیز آنکھوں سے اس کی طرف گھور کے دیکھا اور دروازے کی چٹخنی بند کر دی۔ رات کے بارہ بج چکے تھے، شہر کا مضافات ایک عجیب پراسرار خاموشی میں غرق تھا۔

کلونت کور پلنگ پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئی۔ ایشر سنگھ جو غالبا اپنے پراگندہ خیالات کے الجھے ہوئے دھاگے کھول رہا تھا، ہاتھ میں کرپان لیے ایک کونے میں کھڑا تھا۔ چند لمحات اسی طرح خاموشی میں گزر گئے۔ کلونت کور کو تھوڑی دیر کیبعد اپنا آسن پسند نہ آیا اور دونوں ٹانگیں پلنگ سے نیچے لٹکا کر ہلانے لگی۔ ایشر سنگھ پھر بھی کچھ نہ بولا۔
کلونت کور بھرے بھرے ہاتھ پیروں والی عورت تھی۔ جوڑے چکلے کولہے، تھل تھل کرنے والے گوشت سے بھرپور کچھ زیادہ ہی اوپر کو اٹھا ہوا سینہ، تیز آنکھیں، بالائی ہونٹ پر بالوں کا سرمئی غبار، ٹھوڑی کی ساخت سے پتہ چلتا تھا کہ بڑے دھڑلے کی عورت ہے۔
ایشر سنگھ سر نیوڑھائے ایک کونے میں چپ چاپ کھڑا تھا، سر پر اسکی کس کر باندھی ہوئی پگڑی ڈھیلی ہو رہی تھی۔ اس کے ہاتھ جو کرپان کو تھامے ہوئے تھے، تھوڑے تھوڑے لرزاں تھے مگر اسکے قدوقامت اور خدوخال سے پتہ چلتا تھا کہ وہ کلونت کور جیسی عورت کیلئے موزوں ترین مرد ہے۔
چند اور لمحات جب اسی طرح خاموشی سے گزر گئے تو کلونت کور چھلک پڑی لیکن تیز تیز آنکھوں کو نچا کر وہ صرف اسقدر کہہ سکی ” ایشر سیاں
ایشر سنگھ نے گردن اٹھا کر کلونت کور کیطرف دیکھا مگر اسکی نگاہوں کی تاب نہ لا کر منہ دوسری طرف موڑ لیا۔
کلونت کور چلائی ” ایشر سیاں ” لیکن فورا ہی آواز بھینچ لی اور پلنگ سے اٹھ کر اسکی جانب جاتے ہوئے بولی ” کہاں رہے تم اتنے دن؟
ایشر سنگھ نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری، مجھے معلوم نہیں۔
کلونت کور بھنا گئی۔ یہ بھی کوئی ماں یا جواب ہے۔
ایشر سنگھ نے کرپان ایکطرف پھینک دی اور پلنگ پر لیٹ گیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ کئی دنوں کا بیمار ہے۔ کلونت کور نے پلنگ کیطرف دیکھا جو اب ایشر سنگھ سے لبالب بھرا تھا۔ اسکے دل میں ہمدردی کا جذبہ پیدا ہو گیا۔ چنانچہ اسکے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر اس نے بڑے پیار سے پوچھا ” جانی کیا ہوا ہے تمہیں؟
ایشر سنگھ چھت کیطرف دیکھ رہا تھا اس سے نگاہیں ہٹا کر اس نے کلونت کور کے مانوس چہرے کو ٹٹولنا شروع کیا۔ کلونت
آواز میں درد تھا، کلونت ساری کی ساری سمٹ کر اپنے بالائی ہونٹ میں آ گئی۔ ہاں جانی۔ کہہ کر وہ اس کو دانتوں سے کاٹنے لگی۔

ایشر سنگھ نے پگڑی اتار دی۔ کلونت کور کو سہارا لینے والے نگاہوں سے دیکھا۔ اسکے گوشت بھرے کولہے پر زور سے دھپا مارا اور سر کو جھٹکا دے کر اپنے آپ سے کہا ” یہ کڑی یا دماغ خراب ہے
جھٹکا دینے سے اسکے کیس کھل گئے۔ کلونت کور انگلیوں سے ان میں کنگھی کرنے لگی۔ ایسا کرتے ہوئے اس نے بڑے پیار سے پوچھا ” ایشر سیاں کہاں رہے تم اتنے دن؟
برے کی ماں کے گھر۔ ایشر سنگھ نے کلونت کور کو گھور کے دیکھا اور دفعتا دونوں ہاتھوں سے اسکے ابھرے ہوئے سینے کو مسلنے لگا۔ قسم واہگورو کی، بڑی جاندار عورت ہو۔
کلونت کور نے ایک ادا کیساتھ ایشر سنگھ کے ہاتھ ایکطرف جھٹک دیے اور پوچھا، تمہیں میری قسم، بتاؤ کہاں رہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شہر گئے تھے؟
ایشر سنگھ نے ایک ہی لپیٹ میں اپنے بالوں کو جوڑا بناتے ہوئے جواب دیا۔ نہیں۔
کلونت کور چڑ گئی، نہیں تم ضرور شہر گئے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور تم نے بہت سا روپیہ لوٹا ہے جو مجھ سے چھپا رہے ہو۔
وہ اپنے باپ کا تخم نہ ہو جو تم سے جھوٹ بولے۔
کلونت کور تھوڑی دیر کیلئے خاموش ہو گئی، لیکن فورا ہی بھڑک اٹھی۔
لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا،اس رات تمہیں ہوا کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اچھے بھلے میرے ساتھ لیٹے تھے، مجھے تم نے وہ سارے گہنے پہنا رکھے تھے جو تم شہر سے لوٹ کر لائے تھے۔ میری بپھیاں لے رہے تھے، پر جانے ایکدم تمہیں کیا ہوا، اٹھے کپڑے پہن کر باہر نکل گئے۔
ایشر سنگھ کا رنگ زرد ہو گیا۔ کلونت کور نے یہ تبدیلی دیکھتے ہی کہا۔ دیکھا، کیسے رنگ نیلا پڑ گیا۔ ایشر سیاں، قسم واہگورو کی، ضرور کچھ دال میں کالا ہے۔
تیری جان کی قسم، کچھ بھی نہیں۔
ایشر سنگھ کی آواز بے جان تھی۔ کلونت کور کا شبہ اور زیادہ مضبوط ہو گیا۔ بالائی ہونٹ بھینچ کر اس نے ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔ ” ایشر سیاں، کیا بات ہے؟َ تم وہ نہیں ہو جو آج سے آٹھ روز پہلے تھے؟
ایشر سنگھ ایکدم اٹھ بیٹھا جیسے کسی نے اس پر حملہ کیا تھا۔ کلونت کور کو اپنے تنومند بازوؤں میں سمیٹ کر اس نے پوری قوت کے ساتھ بھنبھوڑنا شروع کر دیا۔ جانی میں وہی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گھٹ گھٹ پا جپھیاں، تیری نکلے ہڈاں دی گرمی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کلونت کور نے کوئی مزاحمت نہ کی، لیکن وہ شکایت کرتی رہی، تمہیں اس رات ہو کیا گیا تھا؟
برے کیا ماں کا وہ ہو گیا تھا۔
بتاؤ گے نہیں؟
کوئی بات ہو تو بتاؤں۔
مجھے اپنے ہاتھوں سے جلاؤ اگر جھوٹ بولوں۔
ایشر سنگھ نے اپنے بازو اسکی گردن میں ڈال دیے اور ہونٹ اس کے ہونٹوں پر گاڑ دیے۔ مونچھوں کے بال کلونت کور کے نتھنوں میں گھسے تو اسے چھینک آ گئی۔ دونوں ہنسنے لگے۔
ایشر سنگھ نے اپنی صدری اتار دی اور کلونت کور کو شہوانی نظروں سے دیکھ کر کہا۔ ” آ جاؤ ایک بازی تاش کی ہو جائے۔
کلونت کور کے بالائی ہونٹ پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں پھوٹ آئیں۔ ایک ادا کیساتھ اس نے اپنی آنکھوں کی پتلیاں گھمائیں اور کہا۔ چل دفعان ہو۔
ایشر سنگھ نے اسکے بھرے ہوئے کولہے پر زور سے چٹکی بھری۔ کلونت کور تڑپ کر ایکطرف ہٹ گئی۔ نہ کر ایشر سیاں، میرے درد ہوتا ہے۔
ایشر سنگھ نے آگے بڑھ کر کلونت کور کا بالائی ہونٹ اپنے دانتوں تلے دبا لیا اور کچکچانے لگا۔ کلونت کور بالکل پگھل گئی۔ ایشر سنگھ نے اپنا کرتہ اتار کے پھینک دیا اور کہا ” لو پھر ہو جائے ترپ کی چال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کلونت کور کا بالائی ہونٹ کپکپانے لگا۔ ایشر سنگھ نے دونوں ہاتھوں سے کلونت کور کی قمیص کا گھیرا پکڑا اور جسطرح بکرے کی کھال اتارتے ہیں، اسی طرح اسکو اتار کر ایکطرف رکھدیا۔ پھر اس نے گھور کے اسکے ننگے بدن کو دیکھا اور زور سے بازو پر چٹکی لیتے ہوئے کہا۔ کلونٹ ، قسم واہگورو کی بڑی کراری عورت ہے تو۔
کلونت کور اپنے بازو پر اھرتے ہوئے لال دھبے کو دیکھنے لگی، بڑا ظالم ہے تو ایشر سیاں۔
ایشر سنگھ اپنے گھنی مونچھوں میں مسکرایا۔ ہونے دے آج ظلم۔ اور یہ کہہ کر اس نے مزید ظلم ڈھانے شروع کر کئے۔ کلونت کور کا بالائی ہونٹ دانتوں تلے کچکچایا۔ کان کی لوؤں کو کاٹا۔ ابھرے ہوئے سینے کو بھنبھوڑا۔
بھرے ہوئے کولہوں پر آواز پیدا کرنیوالے چانٹے مارے۔ گالوں کے منہ بھر بھر کے بوسے لیے۔ چوس چوس کر اسکا سارا سینہ تھوکوں سے لتھیڑ دیا۔ کلونت کور تیز آنچ پر چڑھی ہوئی ہانڈی کیطرح ابلنے لگی۔ لیکن اشیر سنگھ ان تمام حیلوں کے باوجود خود میں حرارت پیدا نہ کر سکا۔ جتنے گر اور جتنے داؤ اسے یاد تھے سب کے سب اس نے پٹ جانے والے پہلوان کیطرح استعمال کر دیے پر کوئی کارگر نہ ہوا۔
کلونت کور نے جس کے بدن کے سارے تار تن کر خودبخود بج رہے تھے غیر ضروری چھیڑ چھاڑ سے تنگ آ کر کہا، ایشر سیاں، کافی پھینٹ چکا، اب پتا پھینک۔
یہ سنتے ہی ایشر سنگھ کے ہاتھ سے جیسے تاش کی ساری گڈی نیچے پھسل گئی۔ ہانپتا ہوا وہ کلونت کور کے پہلو میں لیٹ گیا اور اسکے ماتھے پر سرد پسینے کے لیپ ہونے لگے۔ کلونت کور نے اسے گرمانے کی بہت کوشش کی، مگر ناکام رہی۔ اب تک سب کچھ منہ سے کہے بغیر ہی ہوتا رہا تھا، لیکن جب کلونت کور کے منتظر بہ عمل اعضاء کو سخت نا امیدی ہوئی تو وہ جھلا کر پلنگ سے نیچے اتر گئی۔ سامنے کھونٹی پر چادر پڑی تھی۔ اس کو اتار کر اس نے جلدی جلدی اوڑھ کر اور نتھنے پھیلا کر بپھرے ہوئے لہجے میں کہا۔ ایشر سیاں، وہ کون حرامزادی ہے جس کے پاس تو اتنے دن رہ کر آیا ہے اور جس نے تجھ کو نچوڑ ڈالا ہے؟
ایشر سنگھ پلنگ پر لیٹا ہانپتا رہا اور اس نے کوئی جواب نہ دیا۔
کلونت کور غصے سے ابلنے لگی۔ میں پوچھتی ہوِں، کون ہے وہ چڈو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کون ہے وہ الفتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کون ہے وہ چور پتا؟
ایشر سنگھ نے تھکے ہوئے لہجے میں جواب دیا۔ کوئی بھی نہیں کلونت، کوئی بھی نہیں۔
کلونت کور نے اپنے بھرے ہوئے کولہوں پر ہاتھ رکھ کر ایک عزم کیساتھ کہا، ایشر سیاں، میں آج جھوٹ سچ جان کے رہوں گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واہگورو جی کی قسم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا اس کی تہہ میں کوئی عورت نہیں؟
ایشر سنگھ نے کچھ کہنا چاہا مگر کلونت کور نے اس کی اجازت نہ دی، قسم کھانے سے پہلے سوچ لے کہ میں بھی سردار نہال سنگھ کی بیٹی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تکا بوٹی کر دونگی اگر تو نے جھوٹ بولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لے اب کھا واہگورو کی قسم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا اس کی تہہ میں کوئی عورت نہیں؟
ایشر سنگھ نے بڑے دکھ کیساتھ اثبات میں سر ہلایا۔ کلونت کور بالکل دیوانی ہو گئی۔ لپک کر کونے میں سے کرپان اٹھائی، میان کو کیلے کے چھلکے کیطرح اتار کر ایکطرف پھینکا اور ایشر سنگھ پر وار کر دیا۔

آن کی آن میں لہو کے فوارے چھوٹ پڑے۔ کلونت کور کی اس سے بھی تسلی نہ ہوئی تو اس نے وحشی بلیوں کیطرح ایشر سنگھ کے کیس نوچنے شروع کر دیے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اپنی نامعلوم سوت کو موٹی موٹی گالیاں دیتی رہی۔ ایشر سنگھ نے تھوڑی دیر کیبعد نقاہٹ بھری التجا کی، جانے دے اب کلونت، جانے دے۔
آواز میں بلا کا درد تھا۔ کلونت کور پیچھے ہٹ گئی۔
خون ایشر سنگھ کے گلے سے اڑ اڑ کر اس کی مونچھوں پر گر رہا تھا۔ اس نے اپنے لرزاں ہونٹ کھولے اور کلونت کور کیطرف شکریے اور گِلے کی ملی جلی نگاہوں سے دیکھا۔
میری جان، تم نے بہت جلدی کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن جو ہوا ٹھیک ہے۔
کلونت کور کا حسد پھر بھڑکا، مگر وہ کون ہے؟ تمہاری ماں۔
لہو ایشر سنگھ کی زبان تک پہنچ گیا۔ جب اس نے اسکا ذائقہ چکھا تو اسکے بدن میں جھرجھری سی دوڑ گئی۔
اور میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھینی یا چھ آدمیوں کو قتل کر چکاہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کرپان سے۔
کلونت کور کے دماغ میں صرف دوسری عورت تھی، میں پوچھتی ہوں۔کون ہے وہ حرام زادی؟
ایشر سنگھ کی آنکھیںدھندلا رہی تھیں۔ ایک ہلکی سی چمک ان میں پیدا ہوئی اور اس نے کلونت کور سے کہا۔
گالی نہ دے اس بھڑوی کو۔
کلونت چلائی۔ میں پوچھتی ہوں، وہ ہے کون؟
ایشر سنگھ کے گلے میں آواز رندھ گئی، بتاتی ہوں۔ یہ کہہ کر اس نے اپنی گردن پر ہاتھ پھیرا اور اس پر اپنا جیتا خون دیکھ کر مسکرایا۔ انسان ماں یا بھی ایک عجیب چیز ہے۔
کلونت کور اسکے جواب کی منتظر تھی، ایشر سیاں تو مطلب کی بات کر۔
ایشر سنگھ کی مسکراہٹ اس کی لہو بھری مونچھوں میں اور زیادہ پھیل گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مطلب ہی کی بات کر رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گلا چرا ہے ماں یا میرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب دھیرے دھیرے ہی ساری بات بتاؤں گا۔
اور جب وہ بات بتانے لگا تو اسکے ماتھے پر ٹھنڈے پسینے کے لیپ ہونے لگے۔ کلونت، میری جان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں تمہیں نہیں بتا سکتا، میرے ساتھ کیا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انسان کڑی یا بھی ایک عجیب چیز ہے۔ شہر میں لوٹ مچی تو سب کیطرح میں نے بھی اس میں حصہ لیا لیکن ایک بات تمہیں نہ بتائی۔
ایشر سنگھ نے مونچھوں پر جمتے ہوئے لہو کو پھونک کے ذریعے سے اڑاتے ہوئے کہا، جس مکان پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے دھاوا بولا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس میں سات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس میں سات آدمی تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چھ میں نے قتل کر دیے اسی کرپان سے جس سے تو نے مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چھوڑ اسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک لڑکی تھی بہت سندر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کو اٹھا کر میں اپنے ساتھ لے آیا۔
کلونت کور خاموش سنتی رہی۔ ایشر سنگھ نے ایکبار پھر پھونک مار کے مونچھوں پر سے لہو اڑایا۔ کلونت جانی میں تم سے کیا کہوں کتنی سندر تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اسے بھی مار ڈالتا، پر میں نے کہا، نہیں ایشر سیاں، کلونت کور کے تو ہر روز مزے لیتا ہے، یہ میوہ بھی چکھ دیکھ۔
کلونت کور نے اسقدر کہاں، ہوں،
اسے میں کندھے پر ڈال کر چل دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ راستے میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا کہہ رہا تھا میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں راستے میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہر کی پٹری کے پاس، تھوہر کی چھاڑیوں تلے میں نے اسے لٹا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پہلے سوچا کہ پھینٹوں، لیکن پھر خیال آیا کہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کہتے کہتے ایشر کی زبان سوکھ گئی۔
کلونت کور نے تھوک نگل کر اپنا حلق تر کیا اور پوچھا۔ پھر کیا ہوا؟
ایشر سنگھ کے حلق سے بمشکل یہ الفاظ نکلے، میں نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پتا پھینکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن

اسکی آواز ڈوب گئی۔
کلونت کور نے اسے جھجھوڑا، پھر کیا ہوا؟
ایشر سنگھ نے اپنی بند ہوتی ہوئی آنکھیں کھولیں اور کلونت کور کے جسم کیطرف دیکھا، جس کی بوٹی بوٹی تھرک رہی تھی، وہ مری ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لاش تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بالکل ٹھنڈا گوشت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جانی مجھے اپنا ہاتھ دے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کلونت کور نے اپنا ہاتھ ایشر سنگھ کے ہاتھ پر رکھا جو برف سے بھی زیادہ ٹھنڈا تھا۔
تحریر: سعادت حسن منٹو

نصیب برائے کامیابی: جھوٹ یا حقیقت؟

4
COM
luck vs hardwork

ابھی ابھی میں افتخار اجمل بھوپالی صاحب کا بلاگ 'میں کیا ہوں' پڑھ رہا تھا،جسمیں انہوں نے ایک خوبصورت تحریر لکھی ہوئی تھی۔ انہوں نے دراصل ایک کہانی کا ذکر کیا تھا جو دولت اور نصیب سے متعلق تھی۔ میں نے اس کہانی سے یہ سیکھا کہ نصیب اور دولت کے امتزاج سے ہی کامیابی سے ہمکنار ہوا جا سکتا ہے۔ لیکن پھر میں سوچتا ہوں کہ جو کامیاب ترین لوگ نصیب کو ذرانہیں کھنگتے ،انکا کیا؟ کیا وہ حقیقت ہیں؟ یا پھر ہمیں گمراہ کر رہے ہیں؟ میں نے تو ان سے یہ بھی کہتے ہوئے سنا کہ نصیب دراصل کچھ حقیقت نہیں رکھتا۔ آپ کو محنت سے ہی سب کچھ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ کامیاب لوگ دوسرے لوگوں سے ایسا سب اس لیے کہتے ہوں تاکہ وہ کامیابی کے لئے ذیادہ سے ذیادہ محنت بروئے کار لائیں۔ لیکن میرا مقصد تو فی الوقت یہ سمجھنا ہے کہ وہ حقیقت بولتے ہیں یعنی نصیب کا کوئی ہیر پھیر ہوتا ہی نہیں یا وہ بھلے ہمارے فائدے کے لیے ہی سہی مگر جھوٹ بولتے ہیں؟ اس متعلق دوسری سوچ یہ ہے کہ نصیب دراصل خدا کی مرضی ہوا کرتی ہے، ایسی مرضی جس پر انسان کا زور نہیں چلتا۔ یہ معمہ حل ہو نا ہو مگریہ بات طے ہے کہ ہم انسان اس متعلق کافی مختلف سوچتے ہیں۔

میرا ذاتی خیال ہے کہ شاید نصیب کوئی ایسی بلا کا نام ہے جسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ نصیب سے متعلق ایک مشہورامریکی لکھاری میکس گندربھی ایسا ہی کچھ سوچتا تھا۔ مثال کے طور پر میں ملتان میں پیدا ہوا تو یہ میرا نصیب ٹھہرا، کیونکہ میں نے تو ملتان میں پیدا ہونے کا فیصلہ نہیں کیا تھا۔ اب فرض کریں کہ میرا مقصد لاس انجلس جاکر رہنا ہے۔ تو میں محنت کر کے، مکمل طور پر تیار ہو کےوہاں جا سکتا ہوں۔ وگرنہ نہیں۔ تو یہ میری محنت کا پھل ہوا، نہ کہ نصیب کی کوئی کہانی۔ لیکن یہ غلط بھی تو ہو سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ حقیقت کچھ اور ہو۔ یا یوں کہیں کہ ہر شخص کی اپنی کہانی ہے، اپنی حقیقت ہے۔ اوریہ ہو سکتا ہے کہ تمام حقیقتیں واقعی حقیقتیں ہوںمگر خاص اس شخص کے لئے جو انکو حقیقتیں مانتا ہے۔

آپ نصیب سےمتعلق کیا خیالات رکھتے ہیں؟نیچےتبصروں میں ضرور بتایئے گا۔شکریہ
یار زندہ صحبت باقی۔ محبت سے محبت بانٹنے والوں کی خیر ہو۔


میرے ایک عزیز دوست وقاص ملک نے اس تحریر پرفیس بک کے ذریعے درج ذیل تبصرہ کیا ہے،جو کہ قابل سمجھ ہے:
"بهائی میں جہاں تک سمجهتا ہوں کہ ہمارے بزرگوں کی جو حکمت ہوتی ہے وہی ہماری قسمت ہوتی ہے! اگر وہ حکمت بہترین رہی ہے تو آنے والوں کی قسمت بهی شاندار ہوگی.باقی پیسہ سب کچھ نہیں ہوتا پر بہت کچھ ضرور ہوتا ہے"

جنت سے جون ایلیا کا خط انور مقصود کے نام

0
COM

یہ تحریر اردو محفل فورم سے حاصل کی گئی ہے جسکا لنک یہ ہے: جنت سے جون ایلیا کا خط انور مقصود کے نام

انو جانی
تمہارا خط ملا، پاکستان کے حالات پڑھ کر کوئی خاص پریشانی نہیں ہوئی۔ یہاں بھی اسی قسم کے حالات چل رہے ہیں۔شاعروں اور ادیبوں نے مر مر کر یہاں کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔مجھے یہاں بھائیوں کے ساتھ رہنے کا کہا گیا تھا، میں نے کہا کہ میں زمین پر بھی بھائیوں کے ساتھ ہی رہا کرتا تھا، مجھے ایک الگ کوارٹر عنایت فرمائیں۔مصطفیٰ زیدی نے یہ کام کر دیا اور مجھے کواٹر مل گیا، مگر اس کا ڈیزائن نثری نظم کی طرح کا ہے جو سمجھ میں تو آجاتی ہے لیکن یاد نہیں رہتی، روزانہ بھول جاتا ہوں کہ میرا بیڈ روم کہاں ہے۔ لیکن اس کوارٹر میں رہنے کا ایک فائدہ ہے، میر تقی میر کا گھر سامنے ہے۔ ان کے 250 اشعار جن میں وزن کا فقدان تھا، نکال چکا ہوں مگر میر سے کہنے کی ہمت نہیں ہو رہی۔


کُوچہ شعر و سخن میں سب سے بڑا گھر غالب کا ہے۔میں نے میر سے کہا آپ غالب سے بڑے شاعر ہیں آپکا گھر ایوانِ غالب سے بڑا ہونا چاہئے، میر نے کہا ، دراصل وہ گھر غالب کے سسرال کا ہے، غالب نے اس پر قبضہ جما لیا ہے۔میر کے گھر کوئی نہیں آتا، سال بھر کے عرصے میں بس ایک بار ناصر کاظمی آئے وہ بھی میر کے کبوتروں کو دیکھنے کے لئے۔ایوانِ غالب مغرب کے بعد کھلا رہتا ہے، جس کی وجہ تم جانتے ہو



مجھے کیا بُرا تھا مرنا ،
اگر ایک “بار” ہوتا۔



یہاں آکر یہ مصرعہ مجھے سمجھ میں آیا۔ اس میں “بار” انگریزی والا ہے۔



دو مرتبہ غالب نے مجھے بھی بلوایا لیکن منیر نیازی نے یہاں بھی میرا پتہ کاٹ دیا۔ سودہ کا گھر میرے کوارٹر سے سو قدم کے فاصلے پر ہے۔ یہاں آنے کے بعد میں ان سے ملنے گیا، مجھے دیکھتے ہی کہنے لگے، میاں! تم میرا سودا لا دیا کرو۔ مان گیا۔ سودہ کا سودا لانا میرے لئے باعث عزت ہے۔ لیکن جانی!جب سودہ حساب مانگتے تھے تو مجھ پر قیامت گزر جاتی تھی۔جنت کی مرغی اتنی مہنگی لے آئے، حلوہ کیا نیاز فتح پوری کی دکان سے لے آئے؟، تمہیں ٹینڈوں کی پہچان نہیں ہے؟ ہر چیز پہ اعتراض۔ مجھے لگا تھا کہ وہ شک کرنے لگے ہیں کہ میں سودے میں سے پیسے رکھ لیتا ہوں۔چار روز پہلے میں نے ان سے کہہ دیا کہ میں اردو ادب کی تاریخ کا واحد شاعر ہوں جو اسی لاکھ کیش چھوڑ کے یہاں آیا ہے۔ آپکے ٹینڈوں سے کیا کماؤں گا۔آپکو بڑا شاعر مانتا ہوں اس لئے کام کرنے کو تیار ہوا، آپکی شاعری سے کسی قسم کا فائدہ نہیں اٹھایا، آپکی کوئی زمین استعمال نہیں کی۔آئیندہ اپنا سودا فیض احمد فیض سے منگوایا کیجیئے، تاکہ آپکا تھوڑا بہت قرض تو چکائیں۔میرے ہاتھ میں بینگن تھا، وہ ان کو تمایا اور کہا:



بینگن کو میرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں



ایک شہد کی نہر کے کنارے احمد فراز سے ملاقات ہوئی، میں نے کہا میرے بعد آئے ہو اس لئے خود کو بڑا شاعر مت سمجھنا، فراز نے کہا، مشاعرے میں نہیں آیا۔ پھر مجھ سے کہنے لگے، امراؤ جان کہاں رہتی ہے؟ میں نے کہا، رسوا ہونے سے بہتر ہے گھر چلے جاؤ، مجھے نہیں معلوم کہا وہ کہاں رہتی ہے۔



جانی! ایک حُور ہے جو ہر جمعرات کی شام میرے میرے گھر آلو کا بھرتا پکا کے لے آتی ہے۔ شاعری کا بھی شوق ہے، خود بھی لکھتی ہے، مگر جانی! جتنی دیر وہ میرے گھر رہتی ہے صرف مشتاق احمد یوسفی کا ذکر کرتی ہے۔ اس کو صرف مشتاق احمد یوسفی سے ملنے کا شوق ہے۔ میں نے کہا، خدا ان کو لمبی زندگی دے، پاکستان کو ان کی بہت ضرورت ہے، اگر ملنا چاہتی ہو تو زمین پر جاؤ، جس قسم کی شاعری کر رہی ہو کرتی رہو، وہ خود تمہیں ڈھونڈ نکالیں گے اور پکنک منانے سمندر کے کنارے لے جائینگے۔ابنِ انشاء، سید محمد جعفری، دلاور فگار، فرید جبال پوری اور ضمیر جعفری ایک ہی کوارٹر میں رہتے ہیں۔ ان لوگوں نے 9 نومبر کو اقبال کی پیدائش کے سلسلے میں ڈنر کا اہتمام کیا تھا۔اقبال، فیض، قاسمی، صوفی تبسم، فراز اور ہم وقتِ مقررہ پر پہنچ گئے۔کوارٹر میں اندھیرا تھا اور دروازے پر پرچی لگی تھی: “ہم لوگ جہنم کی بھینس کے پائے کھانے جا رہے ہیں، ڈنر اگلے سال 9 نومبر کو رکھا ہے۔”اگلے دن اقبال نے پریس کانفرنس کی اور ان سب کی ادبی محفلوں میں شرکت پر پابندی لگا دی۔



تم نے اپنے خط میں مشفق خواجہ کے بارے میں پوچھا تھا۔ وہ یہاں اکیلے رہتے ہیں، کہیں نہیں جاتے ۔ مگر حیرت کی بات ہے جانی!میں نے ان کے گھر اردو اور فارسی کے بڑے بڑے شاعروں کو آتے جاتے دیکھا ہے۔یہاں آنے کی بھی جلدی نہ کرنا کیونکہ تمہارے وہاں رہنے میں میرا بھی فائدہ ہے۔اگر تم بھی یہاں آگئے پھر وہاں مجھے کون یاد کرے گا؟؟؟



جیتے رہو اور کسی نہ کسی پر مرتے رہو،ہم بھی کسی نہ کسی پر مرتے رہے مگر جانی!جینے کا موقع نہیں ملا -



ماخوز: رخشندہ جلیل کے فیس بُک سے ۔

مسلمان اور فقیر - سید وجدان عالم

0
COM
یہ تحریر سید وجدان عالم کے بلاگ سے لی گئی ہے جسکا لنک یہ ہے: دو مضمون--فقیر، مسلمان

مسلمان
مسلمان کئی طرح کے ہوتے ہیں پاکستانی مسلمان، بھارتی مسلمان، ترکی کے مسلمان ، سندھ کے مسلمان، پنجاب کے مسلمان۔ یہ دیکھنے میں
 ایک جیسے لگتے ہیں لیکن ایک جیسے ہوتے نہیں ہے۔ ایک انگریز نے لکھا تھا کہ مسلمان جب نماز پڑھتے ہیں تو ایک طرح کا اتفاق اور مساوات ان کے درمیان دیکھا جاتا ہے۔لیکن خدا کی کرنی ایسی ہوئی کہ اس کا چکر پاکستان کا لگ گیا۔ دیکھ کر حیران ہوا، کہنے لگا وہ مساوات کیا ہوئی؟ ہم نے کہا کیوں بھائی کہنا کیا چاہتے ہو آخر تم؟ کہنے لگا کہ ہندوستان گیا تھا وہاں کئی طرح کے ہندو ہیں اور ان کے مندر الگ الگ ہیں۔ ہم نے پوچھا تو؟ یہاں بھلا مساوات سے ہندو کا کیا لینا دینا؟ کہنے لگا وہاں گوشت کھانے والا ہندو ہے اور گوشت نہ کھانے والا ہندو، کوئی کسی مورتی کو پوجتا ہے تو کوئی کسی کو لیکن ہر دیوی دیوتا کا مندر الگ ہے جبکہ یہاں تو کمال ہی ہو گیا؟ ہم نے پھر پوچھا کہ کیسا کمال؟ کہنے لگا یہاں پگڑی پہننے والا مسلمان ہے اور پگڑی نہ پہننے والا مسلمان ہے ، مسجد گیا میں بادشاہی والی، وہ جو لاہور میں ہے بڑی ساری جہاں اقبال دفن ہی  جنہوں نے کہا تھا کہ ‘تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو؟’ بالکل اسی کے مصداق ایک ہی صف میں پانچ مسلمان، پانچ الگ طریقوں پہ نماز پڑھ رہے ہیں۔۔۔ بھائی یہ کیا ہے؟ یہ مسلمان ہیں تو وہ جن کو میں نے دیکھ کے کتاب لکھی وہ کون تھے؟ اگر مسلمان تھے تو کیا ہوئے؟ ہمارے پاس جواب ہی نہ تھا۔
پھر کہنے لگا کہ اچھا آپ بتا دو اصل والا مسلمان کہاں ملے گا؟ ہمیں اور تو کوئی جگہ معلوم نہ تھی سو کہہ دیا کہ عامر لیاقت نامی ایک نامی گرامی اور “تعلیم یافتہ” عالم ہوا کرتے ہیں انکو اکثر کہتے سنا ہے کہ “تکے لگاؤ مسلمانوں”، ان سے مل لیجئے شاید آپکو بتا دیں کہ کہاں ملتے ہیں۔ بس اتنا کہنا تھا کہ ہمارے واری جاتے تھے اور شکریہ میں بچھے جاتے تھے۔

فقیر:

یہ لفظ فقیر فقر سے نکلا ہے لیکن فقیر کا فقر سے کوئی تعلق اب نہیں رہا، جیسے اسلام کا مسلمانوں سے نہیں رہا بالکل ویسے۔فقیر پاکستان کے بھی دیکھے اور فقیر یورپ کے بھی دیکھے۔ یورپ والے فقیر ہاتھ میں باجا لئے بجائے جاتے ہیں لوگ دھنیں سن کر ان کے سامنے پڑے برتن (جسے ہم یہاں کشکول کہتے ہیں جو یہاں بھی دکھنے میں کشکول جیسا نہیں لگتا) میں پیسے ڈالتے رہتے ہیں ۔ ایسے میں فقیر کی “عزتِ نفس” بھی کہیں نہیں جاتی اور پیسہ بھی مل جاتا ہے۔ایک جگہ ایک جوکر کو دیکھا (نہیں وہ والا نہیں، یہ کوئی انگریز تھا، گو کہ وہ انگریزی ملک میں رہتا ہے لیکن فقیر وہ نہیں ہے، جوکر کا ہم کچھ کہنے سے قاصر ہیں ، آپ فیصلہ کر لیں)وہ لوگوں کو ہنسا ہنسا کر کرتب کر کر پیسے کمائے جاتا تھا۔ فقیری کا یہ طریقہ انوکھا تھا۔ پاکستان میں کچھ لوگوں نے اپنانے کی کوشش کی لیکن کامیابی چند ایک کو ہی ملی، انکو آج ہم عارف لوہار کے نام سے جانتے ہیں۔
ہمارے ہاں کے جو فقیر ہیں وہ بڑے ہی کوئی فقیر ہیں۔ وہ آپکو مدینے جانے کی دعائیں دے کے آپ سے پیسے ہتھیا لیتے ہیں لیکن ان کی اپنی دعائیں جانے کیوں قبول نہیں ہوتیں۔ کئی ایک کو تو دیکھا ہے مسجد میں جا کر ان سے مانگتے ہیں جو آگے خود کسی سے مانگنے آئے ہوتے ہیں۔ ہے نہ عجیب بات کہ جس خدا سے نمازی رزق مانگتے ہیں، انہی نمازیوں سے فقیر بھی رزق مانگتے ہیں۔ ہاں نماز پڑھتے ہم نے بہت کم فقیروں کو دیکھا ہے۔

ہیش ٹیگ شاعری

0
COM
یہ مناسب رہے گا کہ مسئلے پر گفتگو سے پہلے ڈسکلیمر کا اندراج کردیا جائے کہ حضرت اقبال کی شاعری سے ہماری جذباتی انسیت محض اسی نوعیت کی ہے جو کسی بھی اردو شاعری کے پرستار کی ہونی چاہیے بلکہ ہم تو رحمتہ اللہ علیہ کا لاحقہ بھی سنت غیر موکدہ کی مانند ہمیشہ ہی گول کرجاتے ہیں۔ یوں بھی بقول عدنان بھائی محترم ہمارے ایسے مغرب زدہ ملحدانہ سوچ کے حامل  اقبال کے قاری نہیں بلکہ انکی شاعری کا مرکزی کردار ہیں (اقبال سے ناواقف قارئین کے لیے عرض کردیں کہ کردار کا اونچی اڑان سےقطعا کوئی تعلق نہیں)۔ بائیں جانب کہ اس انتہائی بائیں جانب ہونے کے باجود بھی سائنس گواہ ہے کہ ہم نے کبھی شاعر مشرق کے قدردانوں سے مسئلہ وسعت مشرق کی بابت کسی قسم کا کوئی مناظرہ نہیں کھیلا  کیونکہ اس کے لیے جس قسم کی عین الکمینگی درکار ہے اس کا دائرہ محدود مگر اثرات لامحدود ہیں؛ یہاں ہمیں تھوڑا سا حقیقت پسند ہونا پڑے گا (مجھے احساس ہے کہ کہ بڑا مطالبہ ہے۔ برائے بحث محض تصور کرلینے میں کیا حرج ہے) لوسی کی ذہنی سطح،  اقبال کی شاعری اور فیس بک تک پہنچ کے ملاپ سے اور کیا نتیجہ برآمد ہونا تھا؟
دیکھیے آپ کو حکم اذاں ہے اس سے کس کافر یا مسلمان کو انکار ہے مگر اذان میں تحریف کے اختیار پر تو آپ کے اپنے حلقوں میں کافی خون خرابہ ہوسکتا ہے۔ اب آپ پیامبر کی گردن زنی کا مشورہ بھی دے سکتے ہیں لیکن صفائی میں عرض کروں کے اقبال کی شاعری کی شرعی حیثیت موضوع بحث نہیں۔ آپ پیران پیر حضرت گیلانی کے گدی نشین کو سادہ اردو میں بھی شیطان قرار دے سکتے ہیں اس کے لیے اقبال کو بے وزنی کے اندھے کنویں میں دھکیلنے کی کیا ضرورت ہے؟ آپ ہمیں یونہی ملحد قرار دیں تو بھلا معلوم ہو اس کے لیے اقبالیات کی فالٹ لائن میں فریکنگ کا خطرناک کھیل کھیلنا کیا ضروری ہے؟ حضور آپ کی منافقت تو فیض کی شاعری سے سبز انقلاب لاسکتی ہے یہ اچانک اقبال کیوں؟

ایم بلال ایم: میرے مرنے کے بعد کیا ہوگا؟

0
COM
یہ مضمون 'ایم۔بلال۔ایم' کی بیاض سے لیا گیا ہےجسکا لنک یہ ہے: میرے مرنے کے بعد
سبھی نہیں مگر اکثریت مرنا بھی نہیں چاہتی اور یہ بھی سوچتی ہے کہ ہمارے مرنے کے بعد کیا ہو گا؟ مختلف نظریات و عقائد رکھنے والوں میں یہ خیالات مختلف سمتیں اختیار کرتے ہیں۔ آخرت پر یقین رکھنے والے اسے کسی دوسری طرح سوچتے ہیں اور نہ رکھنے والے کسی دوسری طرح۔ مرنے کے بعد شروع ہونی والی زندگی پر کوئی سوچے نہ سوچے، اسے مانے نہ مانے لیکن پیچھے چھوڑ جانے والوں کے بارے میں ضرور سوچتا ہے۔اس میں سب سے زیادہ یہ سوچ ہوتی ہے کہ میرے بعد قریبی رشتہ داروں کا کیا ہو گا۔ اگر آپ کے ذہن میں یہ خیال آ رہا ہے کہ ابھی آپ کو تبلیغ کرنے والا ہوں، تو ایسا خیال نکال دیجئے۔ بس ”میرے مرنے کے بعد دنیا میں کیا ہو گا“ کے ایک خاص نکتے کے حوالے سے بات کرنے کی کوشش کروں گا۔
کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ ہمارے مرنے کے بعد آیا لوگ ہمیں یاد کریں گے یا نہیں؟ اگر کریں گے تو کتنے لوگ کریں گے اور اچھے الفاظ میں یاد کریں گے یا برے میں؟ آیا میرے مرنے سے دنیا کو فرق پڑے گا یا نہیں؟ میرا خیال ہے کہ حساس لوگوں کی اکثریت کے ساتھ ساتھ اس نکتہ پر وہ لوگ کچھ زیادہ ہی سوچتے ہیں، جو تھوڑا بہت سماجی کاروائیوں میں حصہ لیتے ہیں اور ان کا حلقہ احباب تھوڑا وسیع ہوتا ہے۔ جب ان کے جاننے والوں میں سے کوئی مر جاتا ہے تو مرنے والے کو جس انداز میں لوگ یاد کرتے ہیں، تو اس سے اکثر کو یہ خیال آتا ہے کہ آیا میرے مرنے کے بعد یہ لوگ مجھے بھی یاد کریں گے یا نہیں؟ یہ سوال وہ لوگ اور بھی زیادہ سوچتے ہیں جن کے اردگرد کے لوگ ان کے منہ پر کچھ زیادہ ہی ”واہ واہ“ کرتے ہیں۔ شعوری یا لاشعوری طور پر کئی لوگ اس سوال کا جواب پانے کے لئے مختلف حرکتیں تک کر جاتے ہیں اور کئی لوگ اکثر جگہ اپنے مرنے کا ذکر کچھ اس انداز میں کرتے ہیں کہ جب میں مر جاؤ گا تو یہ ہو گا، وہ ہو گا۔ ”ہر ٹوٹا ہوا جام ہمیں یاد کرے گا“۔ اکثریت کو اپنا آپ اچھا، بڑا یا انوکھا لگتا ہے، اس لئے کئی لوگ خود کو مطمئن بھی کر لیتے ہیں کہ میرے مرنے کے بعد بہت لوگ مجھے یاد کریں گے اور ایک دفعہ تو دنیا رک جائے گی۔ بس پھر اسی کی تصدیق کے لئے انوکھی انوکھی حرکتیں بھی کرتے ہیں۔
اگر آپ بھی ایسا سوچتے ہیں تو یقین کریں، واقعی آپ کے مرنے کے ساتھ ایک دنیا مرے گی، ایک دنیا رک جائے گی، ایک قیامت برپا ہو گی۔ لیکن وہ ”دنیا“ باہر کی دنیا نہیں ہو گی بلکہ وہ آپ کی اپنی دنیا ہو گی۔ ہر انسان اپنے اندر ایک ”دنیا“ ہے، اس لئے ہر انسان کے مرنے کے ساتھ ایک ”دنیا“ مرتی ہے۔ اس کے علاوہ مرنے والے سے محبت کرنے والے لوگ تھوڑے بہت متاثر ہوتے ہیں اور انہیں اس کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن وقت بہت زبردست مرہم ہے۔ آہستہ آہستہ وہ بہت ساری کمیاں دور کر دیتا ہے اور بہت جلد دنیا واپس اپنے کام میں مصروف ہو جاتی ہے۔ اگر کوئی سوچے کہ اس کے مرنے کے ساتھ باہر کی دنیا بھی ایک دفعہ رک جائے گی یا دنیا کو لمبے عرصے کے لئے کوئی فرق پڑے گا تو یقین کریں ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ اس دنیا کو کسی کے مرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ البتہ کسی کے اچھے یا برے کام سے مرنے کے بعد بھی فرق پڑتا ہے۔ خیر یہاں ہر لمحے انسان پیدا ہو رہا ہے اور مر بھی رہا ہے۔ یہ دنیا یونہی روز اول سے چل رہی ہے اور قیامت تک چلتی رہے گی۔ بلکہ میرے خیال میں جب اس دنیا میں کسی انسان کی ضرورت باقی نہیں رہتی تو تبھی وہ مرتا ہے۔ ہر بندے کی دنیا میں رہنے کی ایک مدت ہے اور اسی مدت کے دوران ہی دنیا کو اس کی ضرورت ہے۔ اِدھر ضرورت اور مدت ختم ہوتی ہے تو اُدھر انسان ختم ہو جاتا ہے۔ اس دنیا میں اگر کچھ زندہ رہتا ہے تو وہ انسان کا کام ہے، ورنہ یہاں تو بڑے بڑے تیس مار خاں کو بھی موت نے آ گھیرا۔ بقول شاعر
دارا اور سکندر جیسے شاہِ عالی شان
لاکھوں من مٹی میں سو گئے بڑے بڑے سلطان
تیری کیا اوقات ہے بندے کچھ بھی نہیں ہے تو

میرے خیال میں یہ بھی اس دنیا کا ”حسن و خوبی“ ہے اور پیچھے رہ جانے والوں کے لئے ایک حساب سے یہ نعمت بھی ہے کہ مرنے والوں کو وہ بھول جاتے ہیں یا ان کی یاد کم ہو جاتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو جو ہمارے پیارے فوت ہو چکے ہیں، ہم آج تک ان کی یاد اور غم میں ہر وقت تڑپتے رہتے۔ جب ہر کوئی غم سے نڈھال ہوتا تو اس دنیا کا نظام رک جاتا۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں یہ ہرگز نہیں سوچنا چاہیئے کہ ہمارے مرنے سے دنیا رکے گی یا نہیں؟ کسی کو کوئی فرق پڑے گا یا نہیں؟ کتنے لوگ ہمیں یاد کریں؟ ہمارے مرنے کے بعد ہمارے اپنوں کا کیا ہو گا؟ ایسے سوال سوچنے کی بجائے ہمیں یہ سوچنا چاہیئے کہ جس نے ہمارے اپنوں کو اس دنیا میں بھیجا ہے، وہ ہم سے بہتر جانتا ہے کہ ان کا کیا کرنا ہے۔ جو پوری دنیا کا نظام چلا رہا ہے وہ ہم سے بہتر کارساز ہے، اس لئے وہ پیچھے رہ جانے والوں کے لئے جو کرے گا بہتر کرے گا۔ بلکہ ہمیں توجہ اس بات پر دینی چاہیئے کہ جب تک زندہ رہیں تو ایسے رہیں کہ لوگ ہماری زندگی کی دعا کریں اور جب مریں تو کوئی یاد کرے نہ کرے مگر دنیا کو ہمارے کیے گئے کام سے فائدہ ہو، کیونکہ انسان زندہ نہیں رہتا جبکہ اس کا کام باقی رہ جاتا ہے۔ کچھ ایسا کریں کہ ہم مریں بھی تو اپنے حصے کا چراغ جلا کر مریں۔ ہمارے مرنے کے بعد جب لوگ ہمارے جلائے ہوئے چراغ کی روشنی سے فائدہ اٹھائیں گے تو ہمیں مر کر بھی فائدہ ہو گا اور ہم مر کر بھی زندہ رہیں گے۔ یوں جینے کا بھی مزہ آئے گا اور مرنے کا بھی۔ بے شک انسان ایک نہ ایک دن مر جاتا ہے، مگر انسان کا چھوٹے سے چھوٹا کام بھی کسی نہ کسی صورت میں ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔
ویسے میں سوچتا ہوں کہ جو لوگ اپنے آپ کو اور اپنے کردار کو سمجھتے ہوئے ہر وقت اچھے سے اچھا کرنے کی کوشش میں ہوتے ہیں، انہیں موت کی فکر نہیں ہوتی، نہ ہی پیچھے رہ جانے والوں کی اور نہ ہی انہیں یہ فکر ہوتی ہے کہ لوگ یاد کریں گے یا نہیں۔ ایسے لوگ بس اس دنیا میں اپنا کردار بخوبی ادا کرنے کی فکر میں ہوتے ہیں اور انہیں جس لمحے بھی موت آئے، وہ اسے خوشی سے قبول کرتے ہیں اور یہی سوچتے ہیں کہ یہیں تک ان کی دنیا تھی، یہیں تک دنیا کو ان کی ضرورت تھی اور یہیں تک ان کا کردار تھا۔

لو جنون مذہبی کا بھوت حاضر ہوگیا

0
COM
 لو جنون مذہبی کابھوت حاضر ہوگیا
اب تو سمجھو آج سے پتھر بھی کافر ہوگیا

نسل انسانی مقید مولوی کی قیدمیں
یوں چلو انسان انسانوں کا تاجر ہوگیا

میں اکیلا ہی چلا تھا حلقہ افہام کو
عقلمندوں کے کٹہرے جھوٹ ظاہر ہوگیا

یوں کھلے ازہان کے میرے دریچے مستقل
اپنی سوچوں اور جذبوں کا میں آمر ہوگیا

جنت و دوزخ کے لالچ سے جو نکلا ایک دن
دل میرابھی ذہن کی مانند شاطر ہوگیا

سچ کو کہنے میں بھی گھبراہٹ مجھے ہے آجکل
تم جو چاہو تو یہ سمجھو کہ میں قائیر ہوگیا

کون مسلم؟ کون کافر فیصلہ ہوتا نہیں
یاں تو سب جھوٹے ہیں یاروصاف ظاہر ہوگیا

اختلاف رائے کے حق میں ذرا سا بولا تھا
اور متعلقہ فیکٹری سے فتوی صادر ہوگیا

کب سے بیٹھا تھا خموش محفل شعور میں
اب تو مانو یا نا مانو! میں بھی شاعر ہوگیا

ازخود: عبدالرؤف