میں معافی کا نہیں، سزا کا متحمل ہوں

میں عورتوں سے تمام مردوں کی طرف سے معافی مانگتا ہوں۔ جو کچھ بھی میں نے یعنی 'پاکستانی نام نہاد مرد' نے عورت کیساتھ کیا، میں معافی کا نہیں سزا کا متحمل ہوں، لیکن پھر بھی نہ جانے کیوں، میں معافی مانگ رہا ہوں۔ ایسا شاید یس لیئے ہو کہ یہ معافی نہیں بلکہ اعتراف جرم ہے، اور اعتراف جرم کے بعد تو اکثر سزا ہی ہوا کرتی ہے۔

میں معافی مانگتا ہوں کہ میں نے عورت کو اپنی سفاک اور شہوت انگیز نظروں کا نشانہ بنایا۔ بازاروں میں تو نظروں سے آگے کچھ بات ہو نہیں پاتی (بعض اوقات ایسا موقع ہاتھ آجائے تو اسے ہاتھ سے گنوانامرد کی شان کے خلاف سمجھا جاتا ہے)، اس لیئے کچھ وحشی مرد اپنے اندر کا جانور اپنے گھروں کی عورتوں پر نکالتے ہیں۔ کبھی یہ جانور'جنسی تشدد'میں سامنے آتا ہے اور کبھی غیر جنسی۔ میں بھی چونکہ مرد ہوں اس لئے میں کئی ایسے مرد بھایئوں کو جانتا ہوں جنہوں نے اپنی بیٹی، بہن،بیوی وغیرہ سے زنا بالجبر کیاہے۔ عمر چاہے کوئی بھی ہو، تشدد کے لیئے بس اتنا کافی ہے کہ اسکی جنس 'خاتون' ہو۔ شروع میں مجھے یقین نہیں آیاکہ کوئی اپنی ہی بیٹی یا بہن کے ساتھ بھی اس قدر ذلیل حرکت کر سکتا ہے، پھر خیال آیا کہ میں بھی تو اپنی بیوی کے ساتھ کئی بار زبردستی کرتا ہوں، اوراسے وہ عمل کرنے پر مجبو کرتا ہوں جو میں نے مختلف قسم کی بےہودہ'بلوپرنٹ'فلموں یا عام زبان میں'گندی فلموں' میں دیکھے ہیں۔ میں نے کبھی جنسی عمل کرتے ہوئے اسکی مرضی نہیں پوچھی، کیوں کہ میں آج بھی سمجھتا ہوں کہ وہ میری جنسی غلام بالخصوص اور گھریلوغلام بالعموم ہے۔ جنسی عمل محبت کی خالص ترین شکل ہے، مگرمیں نے اب اس عمل سے محبت نکال کر جنسی حوس کو شامل کر دیا ہے۔اس طرح میری جنسی ضرورت تو پوری نہیں ہوتی مگر میرے اندر شیطان یعنی جنسی ہیجان پنپتا رہتا ہے۔
میں معافی مانگتا ہوں کہ میں نے عورت کو ونی اور سنگساری کی بھینٹ چڑھایا،کاروکاری کا الزام لگا کر نہ جانے اسکے ساتھ کیا کیا کیا۔ میں معافی مانگتا ہوں کہ میں نے چند ذاتی اختلافات کی بنیاد پرعورت کے حسن پر تیزاب کی گنگا بہا دی، اسکے مختلف جنسی حصوں کو سخت اشیا سے رگڑا تاکہ وہ مکمل طور پر غائب ہو جایئں۔عورت کو میں نے اپنی 'ذاتی عزت' سمجھا، اوراپنی عزت کو دردناک موت کی بھینٹ چڑھا دیا۔میں نے کئی عورتوں کو انکے بچپن میں ہی پاؤں اسقدر سختی سے باندھ دیئے کہ انکو پروان نا چڑھنے دیا۔ بعض اوقات تو ایسا بھی ہواکہ مجھے جب پتہ چلا کہ میری بیوی کے بطن میں وہ انسان ہے جسکی جنس 'خاتون' ہے تو میں نے اسے بطن میں ہی موت دے دی۔ کیوں کہ میں زمینی خدا ہوں، اور مجھے مکمل حق ہے کہ میں اپنی بچی کو ماروں یا زندہ رکھوں۔ایسے میں اگر کوئی مجھے روکے تو میں اسکے خلاف ہوجاتا ہوں۔
کوئی بچی اگر پھر بھی پیدا ہو جائے تو میں اسے تعلیم نہیں دیتا، کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ سکول میں پڑھے گی تو اسکو ان چیزوں کی سمجھ وبوجھ ہو جائیگی جنکی مجھے نہیں ہے،پھر یہ میرے آگے بولے گی اور یہ میری یعنی مرد کی شان کے خلاف ہے۔ اگر ہمت کر کے ایسا کر بھی لوں تو میں اسے کالج یا یونیورسٹی میں تعلیم کے لیئے نہیں بھیج سکتا کہ وہاں تو لڑکے لڑکیوں کے چکر چلتے ہیں۔ اگر ایسا ہو گیا کہ میری بیٹی کو کسی سے پیار ہوگیا تو میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہوںگا۔ میری عزت تو خاک میں مل جائیگی۔ اس لیئے میں کسی طور بھی اسے تعلیم کے لیئے کسی بھی ادارے داخل نہیں کرواتا، باقی جو تربیت کا ذمہ ہے وہ میں بخوبی نبھاتا ہوں۔اور وہ ایسے کہ جو بھی مجھے میرے گھر کے ساتھ والی مسجد کا مولوی کہے گا، یا میرا کوئی بھی مرد رشتے دار کہے گا، اسی طرح کاسلوک روا رکھوںگا۔
آخری الفاط: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ عورت کو مجھے معاف کر دینا چاہیے؟ یا وہ مجھے معاف کر دیگی؟



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں