حکم: "اؤے یہ کر ورنہ۔۔۔ اؤے وہ کر ورنہ۔۔۔"

جب تیرا حکم ملا ترک محبت کر دی
دل مگر اس پہ وہ تڑپا کہ قیامت کر دی

حکم سے بات تو منوائی جا سکتی ہے مگر اس بات کی اہمیت واضح نہیں کی جا سکتی۔ میں نے جب بھی کوئی حکم  مانا ہے، ہمیشہ ایک دفعہ کے لیئے مانا ہے،وہ بھی برائے ادب، دوبارہ وہ کام کرنے کی زحمت نہیں کی، اور اسکی واضح وجہ اس بات کا میرے لیئے ‘حکم’ ہونا ہے۔ حکم دیتے دوران آپ محکوم کو حقیر سمجھ رہے ہوتے ہیں، اگرباطنی طور پر ایسا نہیں تو کم از کم ظاہری طور پر تو بہر حال ایسا ہی ہے۔ ‘بات’صرف اسوقت ہی ہو سکتی ہے جب بات کرنیوالے برابری کی سطح پر براجمان ہوں، بصورت دیگر ‘جسکی لاٹھی اسکی بھینس’والی مثال صادق آتی ہے۔ اب بھینس کو بالکل خبر نہیں ہوا کرتی کہ اسے ‘ایسا ویسا’ کیوں کہا جا رہا ہے۔
حکم کا’عزت و ادب’سے گہرا تعلق  سے جوڑا جاتا ہے، جو کہ میرے لحاظ سے نا انصافی ہے
حکم کا’عزت و ادب’سے گہرا تعلق  سے جوڑا جاتا ہے۔ یعنی جہاں حکم آیا وہا ادب والا کوئی تعلق! مجھے یاد ہےجب میں ممتاز مفتی کی کتاب ‘تلاش’ پڑھ رہا تھا تو میں ایک دم حیران ہوا کہ ممتاز مفتی جیسا عظیم شخص ایسا کیوں سوچتا ہے کہ ادب باپ اور بیٹے کے درمیان فاصلے پیدا کرتا ہے۔ کافی سوچنے کے بعد اسکا موقف سمجھ آیا۔ میرے والد محترم سے مجھے ہمیشہ سے محبت رہی مگر ‘ادب’ کے تکلفات میں ایسا پڑا کہ آج تک میں جو بات اپنی والدہ سے کہ سکتا ہوں، ان سے نہیں کہہ پاتا۔ اب اسکا یہ مطلب قطعی طور پر نہیں کہ میں اپنے والد محترم کی عزت نہیں کرتا، بالکل کرتا ہوں۔ لیکن بہرحال کسی حد تک ‘حکمیہ رویے’ کی بدولت تمام باتیں کہتے ہوئے جھجکتا ہوں۔
حاکمانہ رویہ نیک پیغام کوبھی خاک میں ملا سکتا ہے، اور دوستانہ لہجہ برے پیغام کو تیزی سے آگےبھی پھیلا سکتا ہے
یہ تو ہو گئی انفرادی بات۔ اجتماعی حالات بھی مختلف دکھائی نہیں دیتے۔ مذہب کا درس دینے کے لیئے اکثر علماء حضرات جس طرح کا رویہ اختیار کرتے ہیں، میرا تو کم از کم بالکل دل نہیں کرتا کہ انکی بات مانی جائے۔ یہ بات اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ یہ نا دیکھا جائے کہ بات کون کر رہا ہے، یہ دیکھا جائے کہ بات کیا ہے۔ مگر لہجے اور انداز بیاں کو کسی بھی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ انکی اپنی اہمیت ہے جس سے کسی کو انکا ر نہیں۔ حکمیہ رویہ نیک پیغام کوبھی خاک میں ملا سکتا ہے، اور دوستانہ لہجہ برے پیغام کو تیزی سے آگےبھی پھیلا سکتا ہے۔ مختلف قسم کے سرکاری و غیر سرکاری ادارے ‘قائدانہ صلاحیتوں’ سے متعلق ٹریننگ منعقد کرتے ہیں تو ہمیشہ اسی حکمت عملی پر ذور ڈالتے ہیں کہ بات ایسے کہی جائے کہ سننے والے کے دل پر اثر کرے، جا کہ ‘ٹھا!’ کر کے نا لگے۔ بعدالذکرحکمت عملی پر بات پر عمل تو درکنار ،اکثر اوقات، بات سنی بھی نہیں جاتی۔

حکم دینے والے کے عمومی و طبعی خدوخال

حکم دینے والے کے چہرے پر عجب قسم کا رعب ہوتاہے، جس سے وہ یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ راہ مفاہمت تو کسی طور ممکن نہیں۔
ایسے شخص اپنے آپ پر بھی ترس نہیں کھاتے، بعض اوقات یہ انہیں بھی لگتا ہے کہ انکا رویہ درست نہیں، مگر بھی۔۔۔۔
حاکم شخص کی پیشانی مبارک پر آپکو کافی ‘بل’ مل سکتے ہیں (نوٹ: بل کے ‘ب’ پر زبر ہے) ۔
ایسے شخص سے لوگ تنگ ہوتے ہیں، اکثر دور رہتے ہیں کہ کہیں کوئی حکم ہی نا کر دے، اسی لیئے انکے اپنے چہرے پر تمکنت کا آثار دور دور تک دکھائی نہیں دیں گے۔
ایسے شخص خود ادب نہیں کیا کرتے اور اکثر ڈھٹائی سے پیش آتے ہیں۔
ایسے ہر شخص اور ہر رویے سے بچیں جسکا فطرتی تعلق ‘حکم’ سے ہو۔ میرے لیئے دعا کریں۔محبت بانٹنے کے لیئے میرے پیش نظر بلاگ پر ضرور آئیں، محبت سے محبت بانٹنے والوں کی خیر ہو۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں