مسلمان اور فقیر - سید وجدان عالم

یہ تحریر سید وجدان عالم کے بلاگ سے لی گئی ہے جسکا لنک یہ ہے: دو مضمون--فقیر، مسلمان

مسلمان
مسلمان کئی طرح کے ہوتے ہیں پاکستانی مسلمان، بھارتی مسلمان، ترکی کے مسلمان ، سندھ کے مسلمان، پنجاب کے مسلمان۔ یہ دیکھنے میں
 ایک جیسے لگتے ہیں لیکن ایک جیسے ہوتے نہیں ہے۔ ایک انگریز نے لکھا تھا کہ مسلمان جب نماز پڑھتے ہیں تو ایک طرح کا اتفاق اور مساوات ان کے درمیان دیکھا جاتا ہے۔لیکن خدا کی کرنی ایسی ہوئی کہ اس کا چکر پاکستان کا لگ گیا۔ دیکھ کر حیران ہوا، کہنے لگا وہ مساوات کیا ہوئی؟ ہم نے کہا کیوں بھائی کہنا کیا چاہتے ہو آخر تم؟ کہنے لگا کہ ہندوستان گیا تھا وہاں کئی طرح کے ہندو ہیں اور ان کے مندر الگ الگ ہیں۔ ہم نے پوچھا تو؟ یہاں بھلا مساوات سے ہندو کا کیا لینا دینا؟ کہنے لگا وہاں گوشت کھانے والا ہندو ہے اور گوشت نہ کھانے والا ہندو، کوئی کسی مورتی کو پوجتا ہے تو کوئی کسی کو لیکن ہر دیوی دیوتا کا مندر الگ ہے جبکہ یہاں تو کمال ہی ہو گیا؟ ہم نے پھر پوچھا کہ کیسا کمال؟ کہنے لگا یہاں پگڑی پہننے والا مسلمان ہے اور پگڑی نہ پہننے والا مسلمان ہے ، مسجد گیا میں بادشاہی والی، وہ جو لاہور میں ہے بڑی ساری جہاں اقبال دفن ہی  جنہوں نے کہا تھا کہ ‘تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو؟’ بالکل اسی کے مصداق ایک ہی صف میں پانچ مسلمان، پانچ الگ طریقوں پہ نماز پڑھ رہے ہیں۔۔۔ بھائی یہ کیا ہے؟ یہ مسلمان ہیں تو وہ جن کو میں نے دیکھ کے کتاب لکھی وہ کون تھے؟ اگر مسلمان تھے تو کیا ہوئے؟ ہمارے پاس جواب ہی نہ تھا۔
پھر کہنے لگا کہ اچھا آپ بتا دو اصل والا مسلمان کہاں ملے گا؟ ہمیں اور تو کوئی جگہ معلوم نہ تھی سو کہہ دیا کہ عامر لیاقت نامی ایک نامی گرامی اور “تعلیم یافتہ” عالم ہوا کرتے ہیں انکو اکثر کہتے سنا ہے کہ “تکے لگاؤ مسلمانوں”، ان سے مل لیجئے شاید آپکو بتا دیں کہ کہاں ملتے ہیں۔ بس اتنا کہنا تھا کہ ہمارے واری جاتے تھے اور شکریہ میں بچھے جاتے تھے۔

فقیر:

یہ لفظ فقیر فقر سے نکلا ہے لیکن فقیر کا فقر سے کوئی تعلق اب نہیں رہا، جیسے اسلام کا مسلمانوں سے نہیں رہا بالکل ویسے۔فقیر پاکستان کے بھی دیکھے اور فقیر یورپ کے بھی دیکھے۔ یورپ والے فقیر ہاتھ میں باجا لئے بجائے جاتے ہیں لوگ دھنیں سن کر ان کے سامنے پڑے برتن (جسے ہم یہاں کشکول کہتے ہیں جو یہاں بھی دکھنے میں کشکول جیسا نہیں لگتا) میں پیسے ڈالتے رہتے ہیں ۔ ایسے میں فقیر کی “عزتِ نفس” بھی کہیں نہیں جاتی اور پیسہ بھی مل جاتا ہے۔ایک جگہ ایک جوکر کو دیکھا (نہیں وہ والا نہیں، یہ کوئی انگریز تھا، گو کہ وہ انگریزی ملک میں رہتا ہے لیکن فقیر وہ نہیں ہے، جوکر کا ہم کچھ کہنے سے قاصر ہیں ، آپ فیصلہ کر لیں)وہ لوگوں کو ہنسا ہنسا کر کرتب کر کر پیسے کمائے جاتا تھا۔ فقیری کا یہ طریقہ انوکھا تھا۔ پاکستان میں کچھ لوگوں نے اپنانے کی کوشش کی لیکن کامیابی چند ایک کو ہی ملی، انکو آج ہم عارف لوہار کے نام سے جانتے ہیں۔
ہمارے ہاں کے جو فقیر ہیں وہ بڑے ہی کوئی فقیر ہیں۔ وہ آپکو مدینے جانے کی دعائیں دے کے آپ سے پیسے ہتھیا لیتے ہیں لیکن ان کی اپنی دعائیں جانے کیوں قبول نہیں ہوتیں۔ کئی ایک کو تو دیکھا ہے مسجد میں جا کر ان سے مانگتے ہیں جو آگے خود کسی سے مانگنے آئے ہوتے ہیں۔ ہے نہ عجیب بات کہ جس خدا سے نمازی رزق مانگتے ہیں، انہی نمازیوں سے فقیر بھی رزق مانگتے ہیں۔ ہاں نماز پڑھتے ہم نے بہت کم فقیروں کو دیکھا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں