میں معافی کا نہیں، سزا کا متحمل ہوں

0
COM
میں عورتوں سے تمام مردوں کی طرف سے معافی مانگتا ہوں۔ جو کچھ بھی میں نے یعنی 'پاکستانی نام نہاد مرد' نے عورت کیساتھ کیا، میں معافی کا نہیں سزا کا متحمل ہوں، لیکن پھر بھی نہ جانے کیوں، میں معافی مانگ رہا ہوں۔ ایسا شاید یس لیئے ہو کہ یہ معافی نہیں بلکہ اعتراف جرم ہے، اور اعتراف جرم کے بعد تو اکثر سزا ہی ہوا کرتی ہے۔

طبقات کیسے ختم ہو سکتے ہیں؟

0
COM
ہو سکتا ہے آپکو اس بات سےاختلاف ہو مگر میں اس پر یقین رکھتا ہوں کہ جو قوانین کوئی بھی خاص گروہ یا قوم بنائے، وہی اپنے بنائے ہوئے قوانین پر عمل کرتا رہے، دوسرے گروہوں یا قوموں کو اپنے ذاتی قوانین کی آگ میں جھونکنا کہاں کا انصاف ہے؟ باقاعدہ "آگ میں جھونکنا"اس لئے لکھا گیا کہ واضح ہو کہ میں قوانین کے زبردستی تھونپنے کے حق میں نہیں ہوں۔ ہاں اگر کوئی مرضی سے کسی بھی طبقے کے قوانین پر عمل کرنا چاہتا ہے تو اس میں کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔

محبت کی متوالی مکھیاں - محمودالحق

0
COM
یہ تحریر محمودالحق کے بلاگ سے حاصل کی گئی ہے،جسکا پتہ یہ ہے: محبت کی متوالی مکھیاں
تکمیل ذات و خیال کا ایسا بھنور ہے جس سے نکلنے کے لئے جسم و جاں تنکے کے سہارے کی اُمید بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ پانا اور دینا حرف غلط کی مثل رہ جاتے ہیں۔ دراصل جینا اور مٹنا جسم و جاں کے باہمی تعلق کو سانس کی زندگی تک زندہ رکھتے ہیں۔ مٹے بنا جینا کھل کر سامنے نہیں آتا۔ ذات ایک ایسا بلیک ہول ہے جو قریب آنے والی تحسین و پزیرائی کو جزب کرتا ہے۔خیال مخالف کو آلارم بجا بجا دور بھگاتا ہے۔مکمل حیات جاودانی کے منظر احساس کو چھو جاتے ہیں۔جسے مکمل جانا نہ جا سکے اسے مکمل پایا نہیں جا سکتا۔

حکم: "اؤے یہ کر ورنہ۔۔۔ اؤے وہ کر ورنہ۔۔۔"

0
COM
جب تیرا حکم ملا ترک محبت کر دی
دل مگر اس پہ وہ تڑپا کہ قیامت کر دی

حکم سے بات تو منوائی جا سکتی ہے مگر اس بات کی اہمیت واضح نہیں کی جا سکتی۔ میں نے جب بھی کوئی حکم  مانا ہے، ہمیشہ ایک دفعہ کے لیئے مانا ہے،وہ بھی برائے ادب، دوبارہ وہ کام کرنے کی زحمت نہیں کی، اور اسکی واضح وجہ اس بات کا میرے لیئے ‘حکم’ ہونا ہے۔ حکم دیتے دوران آپ محکوم کو حقیر سمجھ رہے ہوتے ہیں، اگرباطنی طور پر ایسا نہیں تو کم از کم ظاہری طور پر تو بہر حال ایسا ہی ہے۔ ‘بات’صرف اسوقت ہی ہو سکتی ہے جب بات کرنیوالے برابری کی سطح پر براجمان ہوں، بصورت دیگر ‘جسکی لاٹھی اسکی بھینس’والی مثال صادق آتی ہے۔ اب بھینس کو بالکل خبر نہیں ہوا کرتی کہ اسے ‘ایسا ویسا’ کیوں کہا جا رہا ہے۔

تن من وارے بیٹھا ہوں - عبدالرؤف

0
COM

تن من وارے بیٹھا ہوں
اک عمر گزارے بیٹھا ہوں
بے شعور ی محفل میں بھی
ادب کے مارے بیٹھا ہوں
حق گوئی کی ہے جسمیں سزا
اُس ظلم ادارے بیٹھا ہوں
تو نے جو کرنا ہے، کر لے تو
ترے پاس پیار ے بیٹھا ہوں
میں تو بھائی! مرضی سے اس
موت کنارے‘ بیٹھا ہوں
تجھ کو ’ایویں‘ شک ہے کہ
میں تیرے سہارے بیٹھا ہوں

(عبدالرؤف)