اوئے گدھے کے بچے! بالکل ہی بیوقوف ہے یار تو


اوپر دی گئی تصویردیکھ کر ہو سکتا ہے کہ آپکو ہنسی آئی ہو، آپکو نہیں آئی تو میرے کافی فیس بکی دوستوں کو بہت آئی۔ یہ تصویر فقط شوق کے لئے نہیں بلکہ یہ باقاعدہ شعور پھیلانے کے لئے لی گئی تھی کہ گدھے قابل محبت جانور ہوا کرتے ہیں، انکے نام پر گالیاں دینا اور انہیں بیوقوفی کی مثال سمجھنا بے حد بیوقوفی ہے۔

"اوئے گدھے کا بچے! بالکل ہی بیوقوف ہے یار تو"
یہ فقرہ بھی اکثر ہی سنا ہوگا،یا ہو سکتا ہے استعمال بھی کیا ہو۔ بہرحال یہ طے ہے کہ یہ فقرہ پڑھ کر آپکو غصہ تو آیا ہی ہوگا۔آخر ایسا کیوں؟

گدھے کو ہمارے ہاں بہت برا سمجھا جاتا ہے۔ گدھا اپنی مکمل آن بان سے باقاعدہ تذلیل کا نشان بن چکا ہے۔ اور بنانے والے ہیں 'ہم'۔ ہم انسان نہ جانے کیا سجھتے ہیں کہ ہم کیا ہیں۔ ہرذع روح کا مستقبل بنانے والے ہم، ماضی مسمار کرنے والے ہم، اور موجودہ حال خراب کرنے والے ہم۔ اور پھر ہم ہی کہتے نہیں کہ ،'اہو، یہ تو خراب ہوگیا'۔ آپ گدھے کو ہی لے لیجیئے، خدا کی قسم! میں نے اس قدر محنتی ،قوی اور وفا شعار جانور کبھی نہیں دیکھا۔ مگر توبہ کیجیئے جو کبھی ہم نے اسکا شکر ادا کیا ہو، الٹا ہم اسکے ساتھ ظلم کرتے 
ہیں، کھانا کم دیتے ہیں وغیرہ۔
لفظ "گدھا" باقاعدہ ایک گالی کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ باپ خود اپنے ہی بیٹے کو "گدھے کا بچہ" کہہ کر ڈانٹتا دکھائی دیتا ہے۔ کیا  ہماری اخلاقی اقدار یہی ہیں جن کا ہم مختلف ادبی اوراق اور بین الاقوامی فورمز پر پرچار کرتے پھرتے ہیں؟ جہاں کوئی ذرا سی انسانی غلطی دیکھی، ارتکاب کرنیوالے کو 'گدھے' سے تشبیح دے ڈالی۔ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ہر غلطی کا گدھے سے تعلق جوڑدیں۔ میں نے تو آج تک کوئی بیوقوفی نہیں دیکھی جو کہ گدھے سے سرزد ہو ئی ہو۔ یہ تو نہایت منکسرالمزاج اور قانع شخصیت کا مالک ہوا کرتا ہے۔ اسکا شمار نہایت ذہین جانوروں میں ہوتا ہے۔یہ بہت باکمال یاد داشت رکھتا ہے اور ان جگہوں کو بہت جلدی یاد کر لیتا ہے جہاں اسکا گزر ہونا ہو۔صحرا میں 60 میل کی دوری پر بھی اپنے ساتھی گدھے کی آواز سن لیتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق گدھا اس گھوڑے سے ذیادہ طاقتور ہے جسکی جسامت گدھے کے برابر ہو۔ سوچ کے لحاظ سے بھی گدھا گھوڑے سے ذیادہ آزاد واقع ہوا ہے، اسی لیئے یہ بہت جلدی انسان کا کہا نہیں مانتا۔ لیکن اسکا مطلب یہ بالکل نہیں کہ ہمارا رویہ گدھوں سے متعلق  منصفانہ ہے۔ ہم بے حد خود غرض اور سفاک جانور ہیں جو ہم گدھے جیسی نعمت کی تذلیل کر رہے ہیں۔ہم تو ان انسانوں کو بھی نہیں چھوڑتے جو گدھے کو بطور ذریعہ روزگار استعمال کرتے ہیں، ہم انکی بھی عزت نفس کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ نسل انسانی عجب رنگ پکڑے ہو ئے ہے۔ گدھے نے انسان کی کہا ں کہاں مدد نہیں کی؟ اسکی کچھ تفصیل نیچے درج ہے:۔

مصریوں کی بے بہا دولت کی وجہ افریقہ سے گدھوں کے ذریعے قیمتی دھاتیں اپنے ملک میں لانا تھا۔
پسیفک سمندر سے میٹیٹیرےنین سمندر تک شاہراہ ریشم کے ذریعےگدھے ہی ریشم لاتے ہیں۔
روم کے فوج گدھوں کو جنوبی یورپ کی طرف لے کر گئی تاکہ وہاں زرعی کاموں میں حصہ بٹا سکیں۔
گدھوں کا انگلینڈ کی معاشی ترقی میں بڑا اہم کردار رہا ہے۔ یہاں بھی روم کی فوج ہی انہیں لائی تھی۔
گدھے بہت بڑے درجے پر بھیڑوں، بکریوں اور دوسرے مویشیوں کی حفاظت کے لیئے استعمال ہوتے ہیں۔

اور یہی گدھا ہمارے انسانوں کے کئی گھروں کا پیٹ پالتا ہے۔ اسکے باوجود گدھے کا  بچہ کہہ کہہ کر تھکتے نہیں۔ پھر بھی آج تک تمہیں کسی گدھے نے 'گدھے کا بچہ' نہیں کہا۔ بین الاقوامی درجہ پر تو گدھے کی اہمیت کو سمجھ لیا گیا ہے اور خراج تحسین پیش کرنے کےلئے 7مئی کو 'گدھوںکا عالمی دن'منایا جاتاہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم گدھوں پر ظلم ختم کریں اور انہیں بطور 'نشان بیوقوفی' نہ پیش کریں۔یہ نہ صرف گدھے کے لئے بلکہ ہماری انسانی اخلاق کی بہتری کے لئے بھی بہتر ہے۔

محبت سے محبت بانٹنے والوں کی خیر ہو۔شکریہ

4 تبصرے:

  1. میرے ہموطنوں نے کونسا ایسا شریف ذی روح چھوڑا ہے جسے ذلیل نک کیا ہو ؟ انسان ہو چوپایہ ہو یا پرندہ

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. درست کہا۔ کس کس بات پر ماتم کیا جائے۔

      آپکے قیمتی الفاظ اپنے بلاگ میں پا کر نہایت خوشی ہوئی

      حذف کریں
  2. بہت عمدہ تحریر ہے۔۔۔

    نصیب کے بارے میں میری رائے بس اتنی ہی ہے کے ماضی کا کم علم انسان جب اپنی ناکامیوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکا تو اس نے نصیب کی اصطلاح گھڑ لی۔۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. آپ کے تبصرے کا شکریہ۔ لگتا ہے کہ آپ کسی اور پوسٹ پر تبصرہ کرنا چاہ رہے تھے، غلطی سے یہاں ہو گیا

      حذف کریں