پردے سے متعلق سوالات کا جائزہ
عالمگیری سچ بتانے کیخلاف ہوں۔ میں اس گھناؤنے پن کے خلافہوں جو 'پردہ
داری' کے پسِ پردہ ہے اور جسے 'غیرت، عزت، پاکدامنی اور حیا' جیسے
دبیزلفظوں سے چھپا دیا گیا ہے۔ اورمیں جب یہ کہتا ہوں کہ میں خلاف ہوں تو
اسکا مطلب ہے کہ یہ کسی قسم کی فتویٰ بازی نہیں ہے بلکہ اس تحریر میں
موجود ہر بات میری ذاتی رائے ہے جس سے آپکا متفق
ہونا یا نہ ہونا محض آپ پر ہے۔
آب عقیدت کی ٹافی کو مُنہ سے باہر نکال کر اور آنکھوں پر سے کسی خاص رنگ
کی عینک اتار کرسوچیئے کہ بھلا حجاب میں عام طورپرآنکھیں نظرآتی ہیں،
توکیا آنکھیں جنسی کشش پیدا نہیں کر سکتیں؟ حالانکہ میں نے تو یہی سنا کہ
اکثر'آنکھوں کے رستے دل میں اترکے' دل کا چین لیتے ہیں۔ مرد کو ڈوپٹے یا
حجاب وغیرہ کی ضرورت کیوں پیش نہیں آتی؟ کیا خواتین مرد کو جنسی نظر سے
نہیں دیکھتیں؟ یا مردانہ جسم بالخصوص مردانہ چہرہ جنسی کشش کا مالک نہیں
ہوتا؟ اور اگر مرد کی نگاہ اتنی ہی بری ہے تو پردہ عورت کیوں کرے بجائے
اسکے کہ مرد اپنی اس بیماری کا علاج کرے؟
جب آپ ایسے سوالات کریں گے تو جوابات کی بجائے ایسے سوالات کی بھرمار
کردی جائے گی کہ آپکی عقل انگشت بدنداں رہ جائے گی۔ آئیےان
سوالات کا بغورجائزہ لے ہی لیں:
تو تم کیا چاہتے ہو کہ پوری دنیا میں پردے پرپابندی لگ جائے؟
نہیں بالکل نہیں، میں بشمول پردے پر ہر قسم کی پابندی کی خلاف ہوں، بس
کسی کو بلا واسطہ تکلیف نہیں ہونی چاہیئے۔ میں آزادی کا پرچار کرنے والا
ایک عام سا انسان ہوں۔ تو جب پردہ نہ کرنیکی آزادی ہونی چاہیئے تو پردہ
کرنے کی کیوں نہیں! لیکن اپنے لیئے کسی بھی قسم کا وطیرہ اپنانے کی سُوجھ
بُوجھ بھی ہونی چاہیئے۔ جیسا کہ ایک تحریر میں میری قابل قدر دوست رامش
فاطمہ نے نشاندہی کی کہ بھلا چھوٹی چھوٹی بچیوں کو بڑے بڑے لبادے پہنانے
کا کیا تُک بنتا ہے؟ جب آپ پردہ کرنیکی آزادی چاہتے ہیں تو بچیوں سے کرنے
نہ کرنے کی آزادی کیوں چھین لیتے ہیں؟ اور اگر وہ اس متعلق فیصلہ کرنے کے
قابل نہیں تو آپ اُن پرزبردستی کا پردہ کیوں تھونپتے ہیں؟ جب وہ ذی شعور
ہو جائیں تو انہیں طے کرنے دیں۔ اور ویسے بھی کوئی ذہنی بیمارہی کسی کو
جنسی طور پرہراساں کرتا ہے۔ بڑوں کی بیماری دور کریں، بچیوں کو تو کم
ازکم بخش دیں۔
کیا ایسا نہیں کہ پردہ برائی کو پھیلنے سے روکتا ہے؟
یہ سوال نہیں عام طور پر ایک بیان ہوتا ہے، بلکہ ایسا مفروضہ جسکا سرنہ
پیر! خاص اس حوالے سے برائی سے مراد کوئی بھی ایسا عمل لیاجاتا ہے جسمیں
جنسی تعلق یا جنسی بدحواسی پائی جائے۔ ہمارے ہاں ایسے موقعوں پر 'چکر
چلانا' اور 'زبردستی کرنا' جیسے الفاظ بھی بالترتیب استعمال ہوتے ہیں۔ اب
اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا برقعہ پوش خاتون لازمی طور پر مسجد
کا مصلیٰ ہوگی؟ کیا محض بے پردہ خاتون کو ہی لازمی طورپر بری نظر سے
دیکھا جاتا ہے؟ بے شک نہیں۔ یہ معاشرہ بیمارمردوں سے بھرا ہوا ہے، انہوں
نے اگر بے پردہ خاتون کو نہیں چھوڑنا توچھوڑنا انہوں نے باپردہ کو بھی
نہیں۔ کیونکہ پردہ کرنا نہ کرنا مسئلہ نہیں، مسئلہ ہے گندی ذہنیت کا،
گندی نگاہ کا اور جھوٹی انا کا۔ ویسے بھی برائی تو برائی ہے، اس نے پردے
کو تھوڑی نا دیکھنا ہے۔ جیسا کہ ایٹم بم یہ نہیں طے کرتاکہ یہودی پرتو
پھٹنا ہے، مسلمان پر نہیں۔ بم تو بم ہے، اسکا کام ہے پھٹنا، تووہ توچلانے
پرپھٹے گا۔
اور ہاں جنسی تعلق تو ایک ضرورت ہے، برائی نہیں، اس نے تو پورا ہونا ہی
ہے۔ مجھ سمیت آپ بھی ایسی برقعہ پوش لڑکیوں و خواتین کوجانتے ہونگے کہ جن
کے بوائے فرینڈز ہیں۔
تو کیا تم چاہوگےتمہاری بہن یا بیوی بے پردہ باہر نکلیں؟
یہ سوال بھی ہماری اجتماعی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ سب سے پہلے تو یہ
بتاتاچلوں کہ مجھے کوئی حق نہیں کہ میں کسی کو بھی بے پردہ یا با پردہ
کرنا چاہوں۔ پھر وہ بھلے میری اپنی بہن یا بیوی وغیرہ ہی کیوں نہ ہو۔
ہاں، میں انکو درست اورغلط لوگوں کا فرق بتا سکتا ہوں (تھونپ پر بھی نہیں
سکتا)۔ مجھے تو یہ پتاہے کہ آپ جس چیزکو جتنا ذیادہ چھپائیں گے وہ اتنا
ہی نکل کر سامنے آئیگی۔ اور پھر ایسا سوال کرنے والے میری بہن یا میری
بیوی سے متعلق ہی کیوں پوچھتے ہیں؟ صاف ظاہر ہے کہ اندر سے وہ بھی گندی
نگاہ رکھتے ہیں اور سب کو اپنے جیسا سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ بس اپنی
ماں بہن کو بچاؤ، باقی کی خیر ہے۔ زمانہ تو ویسے بھی خراب ہے۔ یہ نہیں
سوچنا کہ جناب آپ بھی اسی زمانے کی اکائی ہیں۔ اپنے آپکو بہتر کریں، نظر
رکھیں نہیں، نظراٹھا لیں۔ مسئلہ تو وہیں ختم ہو جائےگا۔ اس طرح آپ پر بھی
ہروقت چوکنا رہنے کا بوجھ ختم ہو جائےگا۔
یہ رجحان بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ اچھے بھلے آزاد خیال لوگ جو 'خواتین
کی آزادی' کے نعرے لگاتے نہیں تھکتے، اپنے گھر کی خواتین کو غلامی کے
تنبُو کے بغیر ایک قدم باہر نہیں نکلنے دیتے۔ اپنے گھر کی خواتین کو چھوڑ
کے باقی سب کو تاڑنا ہے۔ اپنی بیوی اِس آس پہ تھک جاتی ہے کہ کبھی تو
اسکا شوہر پیار سے اُسے دیکھے گا۔ لیکن نہیں۔ یہ تو انکو دیکھے گا جو
دانہ تک نہیں ڈالتیں۔ کیوں؟ کیونکہ مان لیں کہ ایسا مرد بیماری ہے۔ اب اس
پہ ستم یہ کہ ایک اورمرد اسکا علاج یہ کریگا کہ عورتوں پرپردہ ڈال دیگا۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس علاج سے مردانہ بیماری چلی گئی؟
عورت عظیم ہے، اہم ہے، بالکل ایک ہیرہ ہے۔ تو کیا تمہیں نہیں لگتا کہ اسے
چُھپا کہ رکھنا چاہیئے؟
عورت عظیم ہے، اہم بھی ہے لیکن خدا کی قسم یہ ہیرا نہیں ہے۔ ہیرے کی قدر
اسکی قیمت سے ہوتی ہے جبکہ انسان ایک زندگی ہے جسکی کوئی قیمت نہیں۔ ہیرہ
ایک قابلِ بکاؤ شے ہو سکتی ہے جبکہ عورت نہیں۔ ہر انسان کی اپنی شناخت
اور اپنی شخصیت ہوتی ہے۔ اورچہرہ کسی بھی انسان کی شخصیت کا آئینہ دار
ہوتا ہے۔ اور اس بات کا تو کئی جگہ ذکر ہے کہ خدا چہرے اس لیئے بنائے
تاکہ ہم سب پہچانے جائیں۔ جبکہ ہم نے بحیثیت مرد عورت سے اسکا بنیادی حق
یعنی شناخت ہی چھین لیا۔ اور ویسے بھی سوال کی رُو سے جو جتنا عظیم ہوتا
ہے اسے اتنا چھپنا چاہیئے تو سب سے پہلے تو خود مرد کو باپردہ ہوجانا
چاییئے کیوں کہ مرد کئی لحاظ سے اپنے آپکو عظیم اور برتر سمجھتا ہے۔
اسی طرح اور بھی کئی سوالات ہیں جوہمارے جنسی ہیجان کی عکاسی کرتے رہتے
ہیں اور ہمیں دھوکہ دیتے رہتے ہیں۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے مرد نے عورت
کو جگہ جگہ نیچا دکھایا اوراُس کی شناخت کو پردے میں رکھ کے چھپایا۔ مجھے
تولگتا ہے کہ اگرمرد افزائشِ نسل کرسکتاتوعورت کو اس معاشرے میں بچا
کُھچا مقام ملنا تو درکنار، محتاط خدشہ ہے کہ وہ کب کی معدوم ہو چکی
ہوتی۔
پردے پرمُصرلوگ ایک مرد مصنف اور بیوروکریٹ جناب ممتازمفتی کی کتاب
'تلاش' کا حوالہ دیتے ہیں جہاں ایک دوست سے گفتگو میں یہ نتیجہ اخذ کیا
تھا کہ پردہ ختم کرنے سے جنسی تحریک ختم ہوجاتی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے
کہ 'جنسی ٹھرک' ختم ہوجاتی ہے جن سے عورتوں کا جینا حرام ہوا ہوا ہے۔
ایسے دھیمے لوگ کہتے ہیں پوشیدگی یعنی پردہ داری میں حسن ہے۔ حضور
پوشیدگی میں اتنا ہی حسن ہے توآپکی بے پردہ تصویر اتنی واضح کیوں؟ کیا آپ
نہیں مانتے کہ مرد بھی خوبصورت مخلوق ہے؟ جہاں آپ نے اپنے لحاظ سے مردوں
کی جنسی کشش کا انتظام عورتوں کے پردے سے کر دیا، وہاں عورتوں کا بھی
خیال رکھتے ہوئے مردوں کے بھی پردہ کرادیتے۔ انسان کی فطرت ہے کہ ماحول
کیساتھ موافق ہوجاتاہے۔ اب مفتی صاحب کے دوست کے لیئے بھی ساحل سمندرکا
ماحول کچھ دن بعد نیا نہ رہا۔ اور ویسے بھی اُس ماحول میں کوئی ہماری طرح
کی 'مشرقی ٹھرک' مارتا ہوابندہ بھونڈا ہی لگتا ہے، اورآخرکار سدھر ہی
جاتا ہے۔
ایک اورجگہ ممتازمفتی صاحب اپنی 'لبیک' میں قدرت صاحب سے گفتگوکاحوالہ
دیتے ہوئے پوچھتے ہیں کہ اللہ والے لوگ عورتوں سے کیوں گھبراتے ہیں اوران
سے کیوں نہیں ملتے۔ مکمل گفتگو تو آپ خود پڑھ لیجیئے گا، لیکن اس گفتگو
سےایسا ظاہر ہوتا ہے کہ عورت اور شر ایک دوسرے کے لیئے مترادف الفاظ ہیں۔
بعض اوقات تو ایسے لگتا ہے کہ عورت کوئی نئی قسم کی مخلوق ہے جس کے لیئے
ایک الگ دنیا ہے۔ بل برائے حقوق نسواں ہو یا قتل برائے عزت، مرد آپس میں
طے کرلیتے ہیں کہ اس نئی قسم کی مخلوق کیساتھ کیا سلوک روارکھنا ہے۔
اور جب عورت مردانگی کے جُھوٹے بت گرا کر پاش پاش کرتی ہے اور قدرت کی
طرف سے نوازاگیا اصلی چہرہ دکھاتی ہے تو دماغی طورپر علیل مرد زبردستی
پردہ کروانے کی غرض سے اُسکے چہرے پر تیزاب پھینک دیتاہے۔ ایسے لاکھوں
جلے ہوئے چہرے آج بھی ہماری اخلاقی اقدار کوچیخ چیخ کرپُکار رہے ہیں۔
دراصل یہ سب کارستانی مرد کی اپنی جھوٹی انا اورعدم تحفظ کا نتیجہ ہے۔
باقی جو خواتین اپنی رضامندی سے باپردہ رہنے کا دعویٰ کرتی ہیں، ان سے
گزارش ہے کہ اپنی اولاد پر اپنی مرضی مسلط کیئے بغیر انہیں اپنا راستہ
چننیں دیں۔ اور ایک دفعہ مشاہدے کے غرض سے پردہ ہٹا کردیکھیں، آپکولگ پتا
جائیگا کہ آپکی پردہ داری میں کن کن لوگوں کی 'رضامندیاں' شامل ہیں۔
آخرانسان تنگ و بے بس ہو کربھی تو بعض اوقات اقدام اٹھا لیتا ہے۔ میں کئی
ایسی خواتین کوجانتا ہوں جو گھر میں تو پردہ کرتی ہیں، لیکن یونیورسٹی یا
کالج وغیرہ آ کر نہیں، کیونکہ انہیں تو علم ہوگیا کہ پردہ داری سے کوئی
فرق نہیں پڑتا، اُلٹا انکی شناخت چھپتی ہے، پراب گھروالوں کو کون سمجھا
ئے۔
جناب جان ایلیاء کو بھی پردے کا پردہ پوشی کے علاوہ کوئی اور فرض معلوم
نہ ہوسکا۔ آخر میں یہ بتاتا چلوں کہ 'دیسی لبرل'کہہ کرآپ دلائل اور
مشاہدات کورد نہیں کرسکتے، شاید اپنے تئیں پردہ ڈال سکتے ہیں۔ لیکن وہ
بھی کب تک!
میں معافی کا نہیں، سزا کا متحمل ہوں
میں عورتوں سے تمام مردوں کی طرف سے معافی مانگتا ہوں۔ جو کچھ بھی
میں نے یعنی 'پاکستانی نام نہاد مرد' نے عورت کیساتھ کیا، میں معافی کا نہیں سزا
کا متحمل ہوں، لیکن پھر بھی نہ جانے کیوں، میں معافی مانگ رہا ہوں۔ ایسا شاید یس
لیئے ہو کہ یہ معافی نہیں بلکہ اعتراف جرم ہے، اور اعتراف جرم کے بعد تو اکثر سزا
ہی ہوا کرتی ہے۔
طبقات کیسے ختم ہو سکتے ہیں؟
ہو سکتا ہے آپکو اس بات سےاختلاف ہو مگر میں اس پر یقین رکھتا ہوں کہ جو قوانین کوئی بھی خاص گروہ یا قوم بنائے، وہی اپنے بنائے ہوئے قوانین پر عمل کرتا رہے، دوسرے گروہوں یا قوموں کو اپنے ذاتی قوانین کی آگ میں جھونکنا کہاں کا انصاف ہے؟ باقاعدہ "آگ میں جھونکنا"اس لئے لکھا گیا کہ واضح ہو کہ میں قوانین کے زبردستی تھونپنے کے حق میں نہیں ہوں۔ ہاں اگر کوئی مرضی سے کسی بھی طبقے کے قوانین پر عمل کرنا چاہتا ہے تو اس میں کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔
محبت کی متوالی مکھیاں - محمودالحق
یہ تحریر محمودالحق کے بلاگ سے حاصل کی گئی ہے،جسکا پتہ یہ ہے: محبت کی متوالی مکھیاں
تکمیل ذات و خیال کا ایسا بھنور ہے جس سے نکلنے کے لئے جسم و جاں تنکے کے سہارے کی اُمید بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ پانا اور دینا حرف غلط کی مثل رہ جاتے ہیں۔ دراصل جینا اور مٹنا جسم و جاں کے باہمی تعلق کو سانس کی زندگی تک زندہ رکھتے ہیں۔ مٹے بنا جینا کھل کر سامنے نہیں آتا۔ ذات ایک ایسا بلیک ہول ہے جو قریب آنے والی تحسین و پزیرائی کو جزب کرتا ہے۔خیال مخالف کو آلارم بجا بجا دور بھگاتا ہے۔مکمل حیات جاودانی کے منظر احساس کو چھو جاتے ہیں۔جسے مکمل جانا نہ جا سکے اسے مکمل پایا نہیں جا سکتا۔
حکم: "اؤے یہ کر ورنہ۔۔۔ اؤے وہ کر ورنہ۔۔۔"
جب تیرا حکم ملا ترک محبت کر دی
دل مگر اس پہ وہ تڑپا کہ قیامت کر دی
حکم سے بات تو منوائی جا سکتی ہے مگر اس بات کی اہمیت واضح نہیں کی
جا سکتی۔ میں نے جب بھی کوئی حکم مانا ہے، ہمیشہ ایک دفعہ کے لیئے مانا
ہے،وہ بھی برائے ادب، دوبارہ وہ کام کرنے کی زحمت نہیں کی، اور اسکی واضح وجہ اس
بات کا میرے لیئے ‘حکم’ ہونا ہے۔ حکم دیتے دوران آپ محکوم کو حقیر سمجھ رہے ہوتے
ہیں، اگرباطنی طور پر ایسا نہیں تو کم از کم ظاہری طور پر تو بہر حال ایسا ہی ہے۔
‘بات’صرف اسوقت ہی ہو سکتی ہے جب بات کرنیوالے برابری کی سطح پر براجمان ہوں،
بصورت دیگر ‘جسکی لاٹھی اسکی بھینس’والی مثال صادق آتی ہے۔ اب بھینس کو بالکل
خبر نہیں ہوا کرتی کہ اسے ‘ایسا ویسا’ کیوں کہا جا رہا ہے۔
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)